گلشن میں گلوں کا کوئی سہارا نہ رہا
دل اشک بہاتا تھا بے چارہ نہ رہا
اتنا پیار کیا تجھ سے اے جان وفا
کہ دنیا میں کوئی تجھ سا پیارا نہ رہا
ختم ہو یہ زمانہ انقلاب اب کہ
اس شوخ لباس کے تن پر شرارہ نہ رہا
دل دھڑکا ہے بعد مدت کے
لگتا ہے اب یہ ہمارا نہ رہا
کوچ ہے اپنا اب مئے کدے کی جانب
کہ مئے بن اب اپنا گزارہ نہ رہا
چلو عہد وفا باندھیں کہ لوگ کہتے ہیں
عیاز کو محبت کا یارا نہ رہا