زندگی کی راہوں میں
وقت کی پناہوں میں
رات دن کی گردش میں
کہکشاں کی لرزش میں
عمر کے حوالے میں
یاد کے اجالے میں
چند گھڑیاں ایسی ہیں
جن کی نرم چھاؤں میں
کونپلوں کی باتیں ہیں
قہقہوں کی باتیں ہیں
کچھ حسین صبحیں ہیں
کچھ گداز راتیں ہیں
گیسوؤں کے سائے ہیں
آرزو کے دھارے ہیں
چاند ہے ستارے ہیں
چند پرانے نغمے ہیں
جو لتا کے ہونٹوں نے
پربتوں پہ گائے ہیں
آہٹیں ہیں پلکوں کی
روح کی تمازت ہے
زندگی کے موسم ہیں
ہلکی ہلکی وحشت ہے
وقت ہی کا نوحہ ہے
اک عجیب قصہ ہے
نفرتوں کی دیواریں
اب کھڑی ہیں راہوں میں
ناگ چھپے بیٹھے ہیں
پیار کی پناہوں میں
آؤ مل کے پھر ہمدم
قدم سے ملائیں قدم
وقت کے تھپیڑوں سے
راہزن لٹیروں سے
اپنے بیتے لمحوں کا
ہر حساب واپس لیں
مسل ڈالے جو غم نے
وہ گلاب واپس لیں
نفرتوں کے دھویں کو
روپ کی فضا دے دیں
اپنے اپنے حصے کے
سارے خواب واپس لیں
چاند تاروں سے لکھی
ہر کتاب واپس لیں
قدم اپنے واپس لیں
اپنی چاپ واپس لیں
بے لحاظ لمحوں سے
اپنا آپ واپس لیں