چلے آؤ ، بہار آئی ، نہیں دیکھا زمانے سے
Poet: Prof Niamat Ali Murtazai By: Prof Niamat Ali Murtazai,چلے آؤ ، بہار آئی ، نہیں دیکھا زمانے سے
پڑھو خود آ کے لکھے ہیں گلوں پے کچھ فسانے سے
کہا کرتے تھے تم :ـ’’دیکھو حسن کتنا ہے کلیوں میں‘‘
رخ تاباں کو دیکھا کرتے تھے ہم اس بہانے سے
نہیں اب خواب میں آتے جو گزرے پل حقیقت تھے
وہ راتیں جگمگاتی تھیں ، وہ دن بھی تھے سہانے سے
وہ جگنو تیری آنکھوں کے ، وہ برگِ گل لبوں کے بھی
شگوفہ سا بدن بربط ، وہ سانسوں کے ترانے سے
نظاروں کا دریچہ تھی تری زہرہ جبیں جاناں
گلِ عارض حسن کے تھے ہویدا کچھ خزانے سے
بہاروں نے دیئے تحفے ترا آنچل سجانے کو
تری زلفوں کی ٹھنڈک تھی گھٹا کا دل جلانے سے
بہاروں کی جوانی بھی ، ہو جھرنوں کی روانی بھی
تجھی کو ڈھونڈھتے ہیں شب کو تارے سب دیوانے سے
سبو میرے تخیل کا ، ہو پیمانہ سخن کا بھی
مجھے ہستی ملی ہے مٹ کے تیرے آستانے سے
ملی ہے تازگی روح کو ، قرارِ دل بھی حاصل ہے
مری نظروں کا زنگ اترا سرخ آنسو بہانے سے
نہ کعبے میں ، کلیسا میں، نا جا کے دیر و مندر میں
ملے ہے مرتضائیؔ کو خدا بت کو منانے سے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے







