چلے بھی آؤ کہ فسانہ ابھی ادھورا ہے
دل کے اوراق پہ نام ابھی ادھورا ہے
لفظوں کو شناسائ تو نہیں محبت سے
عشق کا پیمانہ ابھی ادھورا ہے
بھول کر بھی بھلا نہ پایا
اک خواب ابھی ادھورا ہے
غزل کو چاہیے تمہاری صورت
میرا یہ گھرانہ ابھی ادھورا ہے
دیکھو اپنے ہاتھ کی لکیروں کو
اک شخص ہے جو ابھی ادھورا ہے