چمکتے سورج والے دن
Poet: سید رافع حسین By: Rafey Syed Husain, Karachiچمکتے سورج والے دن
نیلے آسمان کے نیچے
ساحلوں سے بہت دور
ایک نوجوان مرد
سپیڈ کیبن کروزر اپنی دوڑائے
جزیرے کی طرف چلا جا رہا تھا
وہ خاموش تھا بہت
بال تھے اسکے اڑتے
جب پہنچا وہ جزیرے پر
کمر ایک ناریل کے تنے سے لگا کر
وہ ساحل کو تکنے لگا
لہروں کے نرم شور میں
اسی دن ایک معصوم لڑکی
پیاری سی حسینہ
کسی ملک کی شہزادی
جیسے ہو نگینہ
وہ بھی ایک اور ساحل سے
بیٹھی اپنی سپیڈ کیبن کروزر پر
دوڑانے لگی وہ پانی کے دوش پر
پہنچی جب جزیرے کے
ایک اور کنارے
طبعیت میں تھی اس کے جستجو
چلنے وہ لگی ساحل سے لگ کر
موجوں سے کھیلتے
بالوں کو سہلاتی
سورج سے بچاتی
چہرے کو چھپاتی
ماتھے پر ہاتھ رکھ کر
چہرہ جو اٹھایا
نظر جو ڈالی
وہ نوجوان مرد چونکا
دیکھا کر ایک حسینہ
وہ تھا یہ سمجھتا
یہ جزیرہ تو ہے خفیہ
وہ یکدم کھڑا ہوا
کپڑے جھاڑ کر
جب وہ اس مہ جبین کے پاس پہنچا
مسکرانے وہ لگی
اسے دیکھ کر
باتیں ہونے لگیں
پیار بڑھنے لگا
وقت ہوا تھا اب شام کا
پرندے گنگناتے تھے
دونوں میں بڑھ گئی محبت
ان ہی چند گھنٹوں میں
جدا چاہتے تھے نہ ہونا
اب وہ کبھی پھر
محبت میں ہوئے وہ
اسیر ایک دوسرے کی
اس نے نوجواں نے سوچا
وہ ہے ایک حسینہ
میں ہوں ایک نوجواں
نکاح کے لیے ہے نہیں
دو گواہ
یہ تو ہے ایک جزیرہ
بس نیلگوں پانی ہے
پھر اسکو یاد آئی
یہی ایک نظم
ضروری ہے نہیں گواہ
برائے نکاح دلربا
اس نکہت نے کہا
آپ مجھ کو قبول ہیں
اس نوجوان نے کہا
تم مجھ کو قبول ہو
اتنا سہل تھا نکاح
اتنی آسان تھیں خوشیاں
محبت رب نے کی
ارزاں سب کے لیے
ڈھل چکی تھی شام
تارے جھلملانے لگے تھے
وہ دونوں چادر ایک بچھا کر
ٹوٹتے تاروں پر ہنسے لگے






