چمکتے سورج والے دن
نیلے آسمان کے نیچے
ساحلوں سے بہت دور
ایک نوجوان مرد
سپیڈ کیبن کروزر اپنی دوڑائے
جزیرے کی طرف چلا جا رہا تھا
وہ خاموش تھا بہت
بال تھے اسکے اڑتے
جب پہنچا وہ جزیرے پر
کمر ایک ناریل کے تنے سے لگا کر
وہ ساحل کو تکنے لگا
لہروں کے نرم شور میں
اسی دن ایک معصوم لڑکی
پیاری سی حسینہ
کسی ملک کی شہزادی
جیسے ہو نگینہ
وہ بھی ایک اور ساحل سے
بیٹھی اپنی سپیڈ کیبن کروزر پر
دوڑانے لگی وہ پانی کے دوش پر
پہنچی جب جزیرے کے
ایک اور کنارے
طبعیت میں تھی اس کے جستجو
چلنے وہ لگی ساحل سے لگ کر
موجوں سے کھیلتے
بالوں کو سہلاتی
سورج سے بچاتی
چہرے کو چھپاتی
ماتھے پر ہاتھ رکھ کر
چہرہ جو اٹھایا
نظر جو ڈالی
وہ نوجوان مرد چونکا
دیکھا کر ایک حسینہ
وہ تھا یہ سمجھتا
یہ جزیرہ تو ہے خفیہ
وہ یکدم کھڑا ہوا
کپڑے جھاڑ کر
جب وہ اس مہ جبین کے پاس پہنچا
مسکرانے وہ لگی
اسے دیکھ کر
باتیں ہونے لگیں
پیار بڑھنے لگا
وقت ہوا تھا اب شام کا
پرندے گنگناتے تھے
دونوں میں بڑھ گئی محبت
ان ہی چند گھنٹوں میں
جدا چاہتے تھے نہ ہونا
اب وہ کبھی پھر
محبت میں ہوئے وہ
اسیر ایک دوسرے کی
اس نے نوجواں نے سوچا
وہ ہے ایک حسینہ
میں ہوں ایک نوجواں
نکاح کے لیے ہے نہیں
دو گواہ
یہ تو ہے ایک جزیرہ
بس نیلگوں پانی ہے
پھر اسکو یاد آئی
یہی ایک نظم
ضروری ہے نہیں گواہ
برائے نکاح دلربا
اس نکہت نے کہا
آپ مجھ کو قبول ہیں
اس نوجوان نے کہا
تم مجھ کو قبول ہو
اتنا سہل تھا نکاح
اتنی آسان تھیں خوشیاں
محبت رب نے کی
ارزاں سب کے لیے
ڈھل چکی تھی شام
تارے جھلملانے لگے تھے
وہ دونوں چادر ایک بچھا کر
ٹوٹتے تاروں پر ہنسے لگے