چند روز کی تسکیں آخر ہمیں کہاں لے جائے گی
بے خودی اور حالت غمگین ہمیں کہاں لے جائے گی
وہ کون ہے جو بہاروں کی تقاضہ ہی نہیں کرتا
ہر طرف یہ دنیا رنگین ہمیں کہاں لے جائے گی
یہاں ہر ایک کو ہے تجارت کی فوقیت حاصل
وفا کے بدلے جفا کی توہین ہمیں کہاں لے جائے گی
ہم مسافروں کو سفر سے عہد و پیمان ہے شاید
آزمائش اور یہ سِنِین ہمیں کہاں لے جائے گی
جاکے جس چوکھٹ پر سجدہ کیا تو حقارت ملی
ایسی کیفیت شرمگین ہمیں کہاں لے جائے گی
ہم پائداری کے شرط پر اطاعت کرنا جانتے ہیں مگر
پاؤں سے کھسکتی یہ زمین ہمیں کہاں لے جائے گی