ذہن میں جب کوئی سوال پاﺅ تو آجانا چپکے سے
خود کو بے حال پاﺅ تو آجانا چپکے سے
ہم تو چاند سے ہی تشبیہہ دیا کرتے ہیں
اپنے حُسن پر ذوال پاﺅ تو آجانا چپکے سے
زمانے کی ستم گریاں جب جینا کر دیں مشکل
اور مجھ کو ہی ڈھال پاﺅ تو آجانا چپکے سے
کبھی جو جاﺅ دامن میں پہاڑوں کے
اور اپنا پہلا وصال پاﺅ تو آجانا چپکے سے
اب تو چند گھڑیاں ضد میں رہ لو مگر دیکھو
ہجر کو ہوتا جو سال پاﺅ تو آجانا چپکے سے
ہر موڑ پر بنا سہارے حاوی کے
جب جینا محال پاﺅ تو آجانا چپکے سے