چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
بار بار اٹھنا اس جانب نگاہِ شوق سے
اور تیرا غُرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بیباک ہو جانا میرا
اور تیرا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ میرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے تیرا وہ منہ چُھپانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حالِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر، سب کی مرضی کے خلاف
وہ تیرا چوری چُھپے راتوں کو آنا یاد ہے
آ گیا وصل کی شب بھی کہیں ذکرِ فراق
وہ تیرا رو رو کے مجھ کو رُلانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ تیرا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے تیرا بُلانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب مَنا لینا تو پھر خود رُوٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
باوجودِ ادعائے اِتقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانہ یاد ہے