چھائی رہتی ہے ہر وقت نیم خوابی سی
جب سے صورت دیکھ لی گلابی سی
موتیوں سا اُس کا روپ تھا مانو
مست آنکھ تھی اُس کی شرابی سی
مچل رہا ہوں تصورات میں اُس کے
عجب لگی ہوئی ہے اضطرابی سی
روح بن کر پہنچ جاؤں اُس کے پاس
اِسی بات کی ہر پل ہے شتابی سی
اب تک تو کبھی ایسی نہ تھی یہ
نظر ہو گئی ہے اب بے حجابی سی
دل کا چارہ کرو ٗ کوئی تو چارہ گرو
دل میں ہو گئی ہے خرابی سی
کر لو جو جو ہے بن پڑتا تم سے
کہانی ہوتی جا رہی ہے کتابی سی