چھم چھم کرتی ریت پہ پائل
Poet: SHABEEB HASHMI By: SHABEEB HASHMI, Al-Khobarجھیل کنارے بیٹھ کے دونوں
پھولوں کی برسات کریں
موتی پرو کے ان آنکھوں میں
سپنوں پہ ھم بات کریں
سنہری پریاں پر پھیلائے
جنت کی آغوش بنائے
گم ھو جائیں اس جنت میں
رنگوں کی بارات کریں
ریشم جیسی ٹھنڈی ھوا میں
بکھری ھوئی زلفوں کی فضا میں
نینوں کی پھر بول کے بولی
جزبوں کو بے تاب کریں
پھیلے کاجل جیسے ھو بادل
اڑتا ھوا میں رنگین آنچل
سپیوں میں جیسے بند ھوں موتی
ایسی ھم ملاقات کریں
ساز بجائیں بارش کی بوندیں
سنتے جائیں ھم آنکھیں موندے
گیت اور غزلوں کے مکھڑوں پر
لفظوں کی برسات کریں
کان کی بالی گال پہ ناچے
سر اور تال پہ کنگن ناچے
گجروں کی مہکار پہ بے سدھ
ھر شب کو شب رات کریں
نیلا سمندر اور اسکا ساحل
چھم چھم کرتی ریت پہ پائل
رقص کریں ھواؤں میں لہریں
خشبوؤں کی سوغات کریں
جھیل کنارے بیٹھ کے دونوں
پھولوں کی برسات کریں
موتی پرؤ کے ان آنکھوں میں
سپنوں پہ ھم بات کریں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






