ہمارا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا
جو دھوپ میں چھاؤں تھا
وہاں اک الہڑ مٹیار رہتی تھی
مجھے تم سے محبت ہے ہر روز کہتی تھی
وہ مجھ کو بہاتی تھی میں اس کو بہاتا تھا
وہ مجھ کو چاہتی تھی میں اس کو چاہتا تھا
سکول سے جب میں آتا
اسے اپنے راسٹے میں پاتا
اس طرح دن ماہ میں بدلے ماہ سال ہوئے
اس کے پیار میں اپنے برے حال ہوئے
جب ہم پہ شباب آیا وقت پھر خراب آیا
اس کی شادی کی باتیں ہونے لگیں
ہماری چوری ملاقاتیں ہونے لگیں
گاؤں والوں کو ہم سے بیر ہو گیا
اس طرح ہمارا جینا قہر ہوگیا
اس کے بھائیوں نے ایک امیر سے اس کی شادی کر دی
ہمارے ارمانوں کی بربادی کردی
اس کی جدائی کا غم سہہ نہ پایا
میں پردیس چلا آیا
آج بھی جب اس کی یاد آتی ہے
مجھے خون کےآنسو رلاتی ہے
راتوں کو جگاتی ہے
میری زیست کو جہنم بناتی ہے