خوشی نہ جو ہم کو ملی، پریشان سے ہونے لگے
اِک مُسکراہت پر بھی اب حیران سے ہونے لگے
یادیں تمھاری وقفے وقفے سے ہمیں آنے لکھیں
پچھلے دنوں ناں یاد تم آئے تو ہم رونے لگے
پہلے پہل شدت سے لکھتے تھے ہم مکتوبِ عشق
لیکن رفتہ رفتہ ہم سنگدل سے ہونے لگے
کچھ انا کے خول میں، کچھ گلوں شکوؤں سے مر گئے
اِک اِک کر کے سب جذبے سرد سے ہونے لگے
شاید خواب میں تیرا وصل ہوجائے نصیب
چھوڑئیے مانو جی ہم جا کے اب سونے لگے