چھپ کر پسِ دیوار مجھے دیکھتا رہا
ایسے بھی ایک بار مجھے دیکھتا رہا
وہ محوِ گفتگو تھا کسی اور سے مگر
میں تھا بے اختیار مجھے دیکھتا رہا
اس کی نظر تو میری نظر سے ملی نہ تھی
ہونے لگا خمار مجھے دیکھتا رہا
اتنی سی بات پر یہ ہوئے جان و دل فدا
ظالم جو بار بار مجھے دیکھتا رہا
ہاں ہاں! وہ یاد آیا کہ جانے سے پیشتر
کر کر کے بے قرار مجھے دیکھتا رہا
ممکن ہے میری بات پہ اے جعفری تجھے
ہو نہ ہو اعتبار مجھے دیکھتا رہا