چہرہ میرا تھا ، نگاہیں اُس کی
خاموشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اُس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوتی ہوئی سانسیں اُس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں، شامیں اُس کی
دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی یادیں اُس کی
رنگ جوئندہ وہ، آئے تو سہی
پھول تو پھول ہیں، شاخیں اُس کی
فیصلہ موجِ ہوا نے لکھا
آندھیاں میری، بہاریں اُس کی
خود پہ بھی کھلتی نہ ہو جس کی نظر
جانتا کون زبانیں اُس کی
نیند اِس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی
دور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مجھ کو تھامے ہوئے بانہیں اُس کی