چہرے پر نمایاں کئی الہام یہ لکیریں
ہاتھوں میں رہہ گئی گمنام یہ لکیریں
لکھنے والے نے لکھ ہی دی
تقدیر کی کیسی تمام یہ لکیریں
باہر کی رغبت ہے سونی سونی
اندر جیسے ڈھلتی شام یہ لکیریں
قسمت والوں کو مل جاتی ہیں
ویسی نہیں ہیں عام یہ لکیریں
غرض وسعت سے ہے جیون بستا
غرور کی نہیں غلام یہ لکیریں
تم تو ہمیشہ نرخ پوچھتے ہو
مجھے تو ملی اپنے دام یہ لکیریں
اپنے تغافل سے کہیں جاگ سنتوشؔ
اور مقدر کی سبھی تھام یہ لکیریں