چہرے پہ تیرے حاشیہ آرائی دیکھ کر
میں رو پڑی ہوں پھر تری تنہائی دیکھ کر
خود سے بھی اب تو آنکھ ملاتی نہیں ہوں میں
اب کیا کروں یہ پیار کی رسوائی دیکھ کر
پھر دیکھتے ہی دیکھتے دریا اتر گیا
میری اداس آنکھ میں گہرائی دیکھ کر
ملنے سے تیرے زیست کو ترتیب مل گئی
مدت کے بعد پھر تجھے ہرجائی دیکھ کر
پڑھتی ہوں محفلوں میں جو اپنی غزل کبھی
جلتا ہے مجھ کو ملتی ، پزیرائی دیکھ کر