چین تھا نہ قرار تھا کیا تھا
وہ تیرا اِنتاار تھا کیا تھا
تُونے نہ حق اِسے بُرا جانا
نالہ خود مجھ پہ بار تھا کیا تھا
دل کی دنیا تو جل کے راکھ ہوئی
پھول تھایا شرار تھا کیا تھا
ہوش تھے نہ تیرے دیوانے کو
رنج تھاکہ خمار تھا کیا تھا
تارے جھک کر سلام کرتے تھے
زخمِ دل پر نکھار تھا کیا تھا
چاندنی بھی لپٹ کے روتی تھی
چاند بھی غمگسارتھا کیا تھا
خون روتی ہیں یاد میں کلیاں
دیدہ خوننابہ بار تھا کیا تھا
آبلے پاوُں چومتےتھے میرے
عاشقی کا وقار تھا کیا تھا
عمر بھر کی اذیّتوں کا صلہ
دامنِ تار تار تھا کیا تھا
چاہتے تھے صلہ وفاوُں کا
عشق بھی کاروبار تھا کیا تھا
عقل پر تو ہَوس کے پردے تھے
عشق پر بھی غُبار تھا کیا تھا
سودا سر میں تیری محبت کا
نقد تھا یا اُدھار تھا کیا تھا
یوں تو کہنے کو دل یہ اپنا تھا
اِس پہ کچھ اختیار تھا کیا تھا
جب کہی میں نے داستاں اپنی
جوبھی تھا اشکبار تھا کیا تھا
عُمر گزری اِسی شش و پنج میں
اُس کو بھی مُجھ سے پیار تھا کیا تھا
بعد مرنے کے پوچھتا تھا وسیم
وہ بھی کچھ سوگوار تھا کیا تھا