چین دن کو نہ مجھے شب کو قرار آتا ہے
ہر گھڑی ان کا تصور مجھے تڑپاتا ہے
رو لیا کرتا ہوں کچھ آگ بجھانے کےلیے
شعلہ عشق مگر اور بھڑک جاتا ہے
شوخی حسن ادا بن کے وہ آئے دیکھو
دل ہے قرباں تو جگر صدقے ہوا جاتا ہے
تیری رسوائی سے خاموش رہا کرتا ہوں
پھر بھی ہونٹوں پہ ترا نام مچل جاتا ہے
نقش پا جب کبھی سودائی ترا پاتا پے
لاکھ دل تھامے وہ قابو سے نکل جاتا ہے
جی تو کرتا ہے کہ کہہ دوں ترا سودائی ہوں
پھر بڑے پیار سے دل ہی مجھے سمجھاتا ہے
زندگی اور بھی بڑھ جاتی ہے مرتے مرتے
مجھ کو اختر کوئی چہرہ جو نظر آتا ہے