دل کی تنہائیوں سے ڈر لگتا ہے
دیواروں کی وحشتوں سے ڈر لگتا ہے
گل میں خوشبو نہیں تیرے جانے کے بعد
بہاروں کے آنے سے ڈر لگتا ہے
آنکھیں تو سوکھ چکی ہیں رو رو کر
برساتوں کے آنے سے ڈر لگتا ہے
چاند بھی اچھا نہیں لگتا ہم کو
چاندنی راتوں سے ڈر لگتا ہے
بیتے دنوں کی یادیں بہت رولاتی ہیں
آنے والے دنوں سے ڈر لگتا ہے
جس راہ میں پھرا کرتے تھے ہم کبھی
ان راہوں سے ڈر لگتا ہے
کوئی تیرا نام لے تو دل تھام لیتی ہوں
اب تو تیری باتوں سے بھی ڈر لگتا ہے