ڈر ہے کہیں زندگی کی شام نا ہو جائے
میری موت کی خبر سرعام نا ہو جائے
خبر ہو گئی اگر میرے دیوانے کو
اس کے جینے کی امید نا کام نا ہو جائے
فقط اک امید پر جی رہا ہے وہ
جدائی کے آنسو بھی پی رہا ہے وہ
اپنے انگن کو بسانے کی آس میں
کہیں اس کی یہ آس نا تمام نا ہو جائے
پھولوں کی پنکھڑیاں چن رہا ہے وہ
خوابوں کی پھلجھڑیاں بن رہا ہے وہ
قطرہ قطرہ پگھل بھی رہا ہے وہ
کہیں اس کی یہ عاشقی بدنام نا ہو جائے