عشق کے اس طرح اسباب نہ پوچھو مجھ سے
کس لئے اجڑے مرے خواب نہ پوچھو مجھ سے
دل کو ہارا ہے کہاں میں نے ستمگر لوگو
داستاں عشق کے یہ باب نہ پوچھو مجھ سے
ایک انسان ہوں دل میرا بھی دکھتا ہے بہت
آنکھ سے بہتا ہے کیوں آب نہ پوچھو مجھ سے
داستاں عشق بیاں کر دی غزل میں لیکن
حالت کرب کی وہ تاب نہ پوچھو مجھ سے
آج بھی عکس ہے اس دل کے نہاں خانے میں
کون ہے کیسا ہے مہتاب نہ پوچھو مجھ سے
ڈوب کر عشق میں لکھتی رہی وشمہ سوچیں
اس کے پوشیدہ وہ گرداب نہ پوچھو مجھ سے