وقتِ رخصت نہ بین کیے اس نے نہ آنسو ہی آنکھ سے چھلکا تھا تیری دید کی طلب میں اس نے چپکے سے آنکھ کو میچا تھا رانجھانہ ہیر ، نہ صاحبہ مرزا تھا اس کہانی کا انت یونہی ہونا تھا تیری سیج پہ سجی کوئی اور اسے کسی اور کی ڈولی میں جانا تھا