درد کی دُکھ کی بات کرنی ہے
نارسا سُکھ کی بات کرنی ہے
حوصلہ اب جواب دینے لگا
بے وفاؤں کی با ت کرنی ہے
یا د دل میں بسا کے رکھی ہے
بُھول جانے کی بات کرنی ہے
عمر رفتہ تو ہاتھ سے نکلی
خستہ حالی کی با ت کرنی ہے
دل بھی اب بیٹھ بیٹھ جاتا ہے
ڈھلتی عمروں کی بات کرنی ہے
چاندنی اُس کے سر بھی اتری ہے
اور کچھ اپنی با ت کر نی ہے
دید کا شوق تو سوا ہی ہو ا
آنکھ میں دھند کی بات کرنی ہے
دل میں رکھے چرا غ بُجھ بھی گئے
اب تو جانے کی بات کرنی ہے
شباب لیلی و مجنو ں امر ہوا تو ہوا
ہمیں تو اپنے نصیبوں کی بات کرنی ہے
ڈوب لے ہجر کا یہ د ن ٹھرو
وصل کی شب کی بات کرنی ہے