ڈھنگ کا کوئی کام کرنا نہیں
سو ہوا طے کہ اب سدھرنا نہیں
وہ مروت کہ بس بتاؤں کیا
روٹھنا اب بھی ہے مکرنا نہیں
اِک یہی بات ٹھان رکھی ہے
کچھ بھی کر لُوں کمال کرنا نہیں
نہیں طاقت مزاج سہنے کی
جو بھی ہو اب لحاظ کرنا نہیں
وقتِ رخصت گزر گیا کب کا
ایسا کیا ہے جو اب گزرنا نہیں
تم ہو وہ نشّہ جان جاں جس نے
تا قیامت کبھی اُترنا نہیں
اے مسیحا جو بَن پڑے کر لے
زخم ہے دِل لگی کا بھرنا نہیں
ہے زمینی مگر یہ چال چلن
تُو اُتر، آسماں نے گرنا نہیں
اک نصیحت جو کی تھی اُس نے مجھے
یاد آئی بھی یاد کرنا نہیں
صرف اِسی بات نے سنبھالا مجھے
میں سمیٹوں گی تم بکھرنا نہیں
اور کسی سے کہو کہ مر جائے
ابھی جینا ہے مجھ کو مرنا نہیں