کئی سالوں بعد خوشیوں بھرا، اِک سال ملا جو گزر گیا
دامن میں ہوں گے پھر رنج و غم، یہی تیر دل میں اُتر گیا
گلشن نہیں جو گل پا سکوں، ہوں صحرا نصیب میں جلنا ہے
جو وجہ بنا مجھ پہ ہریالی کا، ابر ہرجائی وہ بکھر گیا
نئے شپ و روز نئے زخم لئے، نئی دوریاں یہ نئے فاصلے
ہیں منتظر مایوسیاں، مجبوریاں، اِن سے ملا میں جدھر گیا
کچھ طلب تھی نہ تلاش تھی، نہ آس تھی، نہ پیاس تھی
کچھ مل گیا، کچھ پا لیا، جسے پا لیا وہ بچھڑ گیا
نہ تھا قافلہ کوئی ساتھ میں، چلتے رہے اکیلے راہوں پہ
منزل نہ ملی ڈھلی شامِ عمر، اپنا تو یونہی کٹ سفر گیا
اِک اجنبی اِک موڑ پہ، بنا ہمسفر کچھ لمحوں کا
جب خاک چھوڑی اِن قدموں نے، میں اِدھر گیا، وہ اُدھر گیا
تمہیں عشقِ لافانی کی طلب رہی، نہ کر سکا کوئی بھی تمھیں
یہ تو آگ تھی کود آگ میں، قیصرؔ ہی تھا بے خطر گیا