کاش تو میرے باغچے کا سرخ پھول ہوتا
تجھے دیکھنا میرے اُصولوں کا اصول ہوتا
تُو دہکتا تو میری آنکھوں کا نور ہوتا
تُو مہکتا تو میری روح کا سکوں ہوتا
کاش تو میرے باغچے کا سرخ پھول ہوتا
صُبح کی شبنم تیرے تَن پہ رقص کرتی
شام کی'شفک' میں توخودمچلتا
بے روخی کے عالم میں ہر کوئی جدا ہوتا
تو مجھ میں ہوتا میں تجھ میں ہوتا
کاش تو میرے باغچے کا سرخ پھول ہوتا
آفریں جیسے تیرے 'حُسن ' کو تکتا
سامنے بیٹھا کے تجھ سے باتیں کرتا
قربت کے دل فریب لمحات میں
تو میرے بدن کی خوشبو ہوتا
کاش تو میرے باغچے کا سرخ پھول ہوتا