مجھ پہ جو گُزری ہے گر اُسکو بھی پتا ہوتا
تو آج وہ مجھ سے یوں ایسے نہ خفا ہوتا
نہ کہتا یوں مجھے کہ دُکھ ہنس کے سہو
وہ بھی اگر لذتِ غم سے کبھی آشنا ہوتا
میرے اُٹھتے ہوئے قدم وہیں رُک جاتے
تو نے اِک بار سہی ، مگر کُچھ تو کہا ہوتا
یہ تو حالات تھے جو اِس موڑ پہ لے آئے
ورنہ یوں سرِ بزم ، نہ میں رُسوا ہوتا
یہ آنسو میرے دل کا بھید نہ کھولتے تو
میری اُلفت کا سرَ عام نہ چرچا ہوتا
اِک زرا سی غلط فہمی نے گُلشن اُجاڑ دیا
میں نے نہ سہی،اُس نے ہی پوچھ لیا ہوتا
مریضَ اُلفت نے یہی کہتے ہوئےدم توڑ دیا
کوئی تو بھری دنیا میں، درد کا مداوہ ہوتا
جس کی اغوش میں سر رکھ ک سکوں ملتاہو
غیروں کی اِس بِھیڑ میں، کوئی تو اپنا ہوتا
رنجھ تو اِس بات کا ہے،جو ہو سکا کیا اُسنے
ہاں مگر دُکھ نہ ہوتا ،اگر وہ بے وفا ہوتا
تعلق توڑ کے مجھ سے تنہائیوں سے کہتا ہے
کاش ایسا نہ ہوا ہوتا کاش ویسا نہ ہوا ہوتا
میں ڈرتا نہ اگر تیری رسوائیوں سے رضا
یوں تماشہ نہ تیری محفل میں بنا ہوتا