کاش میں اک عاشق نہیں تاجر ہوتا
Poet: Ahmad Faisal Ayaz By: Ahmad Faisal Ayaz, Hafizabadکاش میں اک عاشق نہیں تاجر ہوتا
یہ دل میرا محبت سے خالی ہوتا
میں پھرتا بازاروں میں نوٹ کماتا
دوڑتا پھرتا اور خاک اڑآتا
میرے دل میں کسی کا درد نہ ہوتا
میں رات کو کبھی بھوکا نہ سوتا
کچھ مجھے جہاں کی خبر نہ ہوتی
روتی ہے اگر دنیا تو رہے روتی
میں اپنی ہی دنیا میں مست ہوتا
نہ کسی کی یاد میں چین کھوتا
کاش میں بھی بھوک کا پجاری ہوتا
دل خلوص و وفا سے عاری ہوتا
زندگی کی کوئی جنگ نہ ہارتا میں
اگر محبت میں خود کو نہ مارتا میں
خوش لباس ہوتا اور خوش گفتار ہوتا
شہر کے معززین میں شمار ہوتا
میری زندگی کا کچھ تو معیار ہوتا
کسی کوتو مجھ سے پیار ہوتا
گر رکھتا میں اپنے گھر میں دنیا کی دولت
کتنوں کی ہی مجھے مل جاتی چاہت
ہم نے دیکھا ہے کہ سب محبت سے بیزار نکلے
سب لوگ ہی اس دولت کے طلبگار نہیں
اس ہوس دولت کے اب شکار ہم بھی ہیں
ہاں محبت سے بغاوت کو تیار ہم بھی ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






