دل سے کاش وہ بھی واسطہ رکھتے
قائم یہ غم کا سلسلہ رکھتے
خوب کرتے ہماری رسوائی
لہجہ لیکن دبا دبا رکھتے
یوں رکھنا تھا ناامیدی میں
آنسو ہم بھی تو کچھ بچا رکھتے
قدم رکھے ہیں پھول کے دل پر
خیال کانٹوں سے بھی ذرا رکھتے
کیوں کیا عشق مغرور پتھر سے
یہ بھی سنتے اگر صدا رکھتے
آہ ہ فریاد سے نہیں ملتے
لب پہ صادق کوئی دعا رکھتے