کب تک دل میں میں مندر سجائے رکھتا
اور کتنا میں اُسے خدا بنائے رکھتا
موت لگنے لگی تھی پیاری زندگی سے مجھے
بوجھ کندھوں پہ میں کب تک اُٹھائے رکھتا
اس کی فطرت میں تھا جو وہ کرنا تھا اُسے
میں چاہے لاکھ اسے سینے سے لگائے رکھتا
بھر جاتا ضبط کا پیمانہ اآکر
میں کب تک اسے دوست بنائے رکھتا
اب کی عید پہ بھی ہیں وہی یادیں قیصر
کیوں نہ اس بار ہر بات بھلائے رکھتا