دل چھیڑتا ہوا جب پلکیں جھوکاتا تھا
وقت تھا کہ گزرتا جاتا تھا
لب کشائی کا یہ عالم نہ پوچھ کیسے گزرا
سانس تھا کہ اکھڑتا جاتا تھا
نظر ساکت ہوئی چبھ گیا تشتر کوئی
ہاتھ جگر پہ آیا مرض تھا کہ بڑتا جاتا تھا
کب عشق رضا تیرا پیچھا چھوڑے ہے
رمز رک کر بھی درد تھا کہ چلتا جاتا تھا
نام مطلوب کو تشبیح کی طرح
آیت تھا کہ پڑتا جاتا تھا