تم سے ملنے کے لئے ہم نے کئے سو بہانے
پر تم سمجھ نہ پائے اپنی چاہت کے فسانے
کس کس طرح سے روح کے گھاؤ چھپائے ہیں
ان زخموں کی گہرائی کو کوئی بھی نہیں جانے
گرچہ ہمارا دل ہے پر ہم سے بےخبر ہے
انجان مجھ سے ہے مگر یہ تیرا حال جانے
ہم جس کے لئے دنیا سے بیگانہ ہو گئے ہیں
وہ بے خبر ہمارے ہی دل کی لگی نہ جانے
زمیں ہوئی ہے فلک کے ستاروں کے روبرو
لگی آسمان سے آج تو یہ زمیں نظر ملانے
تھوڑی سی محبت نے کیا کیا ہنر سکھائے
اب رات میں لکھتے ہیں تقدیر کے فسانے
عظمٰی تجھے صحرا نوردی راس آگئی ہے
کب تک سفر کروگی کب پہنچوگی ٹھکانے