کبھی جو مجھ کو تلاش کرنا
Poet: By: sajid naveed, lahoreکبھی جو مجھ کو تلاش کرنا
تو چاند راتوں کی چاندنی میں
گل چمن سے سوال کرنا
اداس کیوں ہو
کیوں اوس قطروں میں
اپنے آنسو چھپا رہے ہو
حسین موسم میں کس کی
یادوں سے دل کو اپنے ستا رہے ہو
گل چمن یہ سوال سن کر
تمہاری آمد کا حال سن کر
کہے گا کہ
تم جس کو کھوجتے ہو
وہ اس چمن کی تمام خوشبو چرا کے
اب اک نئے چمن میں مہک رہا ہے
اواس کر کے یہاں پہ ہم کو
کسی چمن میں چہک رہا ہے
گل چمن کا یہ حال سن کر
تمہیں لگے گا
میں بے وفا ہوں
اواس کلیوں کو چھوڑ کر میں
نئی بہاروں کو ڈھونڈتا ہوں
مگر حقیقت میں اس چمن کے
تمام پھولوں کی خواہشوں کا
حسین موسم کی بارشوں کا
اور ان کی تمام ناکام کاوشوں کا
نہ میرے دل پہ کوئی اثر ہوا تھا
نہ میرے دل پہ کوئی اثر ہوا ہے
میں آج بھی اک نئے چمن میں
پرانے قصے سنا رہا ہوں
جو میری محبت کا دیوتا تھا
میں آج بھی اس کو پوجتا ہوں
یقیں نہیں تو پلٹ کے دیکھو
وہیں کھڑا تھا
وہیں کھڑا ہوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






