دہلیز پہ کوئی دیپ جلاؤ نا
کسی شب تو گھر بھی آؤ نا
یہ دل جو تیرے اختیار میں ہے
کبھی آن اسے سمجھاؤ ۔۔۔ نا
میں تو جنم جنم سے تمہارا ہوں
تم اپنی بات بتاؤ ۔۔۔ نا
تم بادل میں تپتا صحرا ہوں
کبھی میری پیاس بجھاؤ نا
کوئی چھیں نہ لے تیرے تعبیریں
یونہی اپنے خواب ستاؤ نا
میری منزل مجھے پکارتی ہے
اے فاصلوں مجھے ڈراؤ نا
ابھی آگے اور جزیرے ہیں
ابھی کشتیوں کو جلاؤ نا
عثمان زندگی سے سمجھوتہ کرلو
اب مسائل کو اور بڑھاؤ نا