کبھی چھپ کر زمانے سے ملا ہم سے بھی کرتا تھا
کبھی آنے کا دیر سے وہ گلہ ہم سے بھی کرتا تھا
تڑپ اٹھتا تھا دیکھ کر وہ ہمیں کیفیت اضطراب میں
مجبور پر عادت سے کہ جفا ہم سے بھی کرتا تھا
وفاء اس کی پہ بولو تم کو اتنا یقین کیوں ہے
سنو تم بھی کبھی وہ تو وفا ہم سے بھی کرتا تھا
چھوڑ اک دن تجھے بھی وہ جائے گا تنہا اکیلے میں
ذکر سن کر جدائی کا وہ لڑا ہم سے بھی کرتا تھا
حسن والوں کی تو ہے یہی ادا ساجد نا گبھرانا
چین لے کر جگر کا وہ دغا ہم سے بھی کرتا تھا