کبھی کوئی مری نیند مرے خواب لکھے
کوئی مرے حصے میں بھی مہتاب لکھے
وہ نا جان سکا دیکھ کے بھی مری حالت
ایسا شاعر ہو جو مرے حال پے کتاب لکھے
اب بھی دل روتا ہے اُسے یاد کر کے
کوئی آئے اور مرے دل کے جذبات لکھے
چلے گئے وہ چھوڑ کے شہر مرا
مر رہا ہے یار اُس کا کوئی اُسے ڈاک لکھے
نہ دفنانا مری لاش کو جب تک وہ آ نہ جائے
جب تک وہ نہ آ کے مرے خود حساب لکھے
وہ پچھتائے اپنی بے وفائی پے اس قدر
وہ اپنی زندگی کے لئے عذاب لکھے
عمر بھر سویا ہوں میں کانٹوں کے بستر پے نہال
مرنے کے بعد ہی کوئی مری قبر پے کومل گلاب لکھے