کبھی گلفام، کبھی ماہ جبین کہتا رہا
وہ خوش گمان ہمیں دلنشین کہتا رہا
اس کی بندہ پروری کے کیا کہنے
کہ وہ دانا ہم سے نادان کو بھی
اپنے جیسی ذہین کہتا رہا
اس حسِین کے حسنَ نظر کے کیا کہنے
کہ وہ ہم سے عام صورت کو بھی
اپنے جیسا حسین کہتا رہا
کبھی گلفام، کبھی ماہ جبین کہتا رہا
وہ خوش گمان ہمیں دلنشین کہتا رہا