کبھی گھر بنا کے خوش ہوئے، کبھی گھر جلا کے خوش ہوئے
کبھی خوشیاں اداس کر گئیں، کبھی غم پا کے خوش ہوئے
کوئی ڈھنگ نہیں تھا رہنے کا ہمیں، نہ ہی کوئی ٹھکانہ تھا کبھی
اک نام ہی بس پہچان بنی تھی، سو نام مٹا کے خوش ہوئے
چہرے خود ہی مسکراتے ہیں، جب خوش کوئی ہوتا ہے یہاں
ہم تو سب سے الگ سے ہیں، ہم آنسو بہا کے خوش ہوئے
جب محفلیں بھری بھری سی تھیں، ہم اداس پھرتے رہتے تھے
یہ عجب ہی شوق رہا ہے اپنا، ہم محفلیں لٹا کے خوش ہوئے
جو تنگ کرے بے سبب تمہیں، اسے سزا دینا تو قانون ہے یہاں
ہمیں تنگ کیا بس خود نے ہی، ہم خود کو مٹا کے خوش ہوئے
یادیں ماضی کی تلخ بھی ہیں، یادیں ماضی کی سہانی بھی
کوئی یاد آیا تو کھل اٹھے، کسی کو بھلا کے خوش ہوئے
کبھی سو جائیں تو ٹوٹتا ہے بدن، ایسی پڑی ہے رت جگے کی عادت
بارش میں بھیگیں تو جلتا ہے جسم، ہم آگ میں نہا کے خوش ہوئے
شوق ہمارا زندہ ہے اب تک، کبھی کبھی بلا لیتے ہیں ان کو
وہ ہر بار جھٹلا کے خوش ہوئے، ہم ہر بار بلا کے خوش ہوئے