کتنی خطائیں کر گئے اس جہاں میں جیتے جیتے
بھلا دیا خدا کو یہ جام پیتے پیتے
گوہ چرچے ہیں ان کے ہر بزم میں لیکن
کچھ دنوں کا ہے ان کا یہ قیام جیتے جیتے
خدا کے سامنے جب روبرو ہم ہوں گے
پھر بتاؤں گا جو کہہ گئے کلام جیتے جیتے
آج ہوں میں اک اجڑے ہوئے صحرا کی مانند
میری وفاؤں کو دیا یہ انعام جیتے جیتے
ناداں تھے دانستہ کی محبت ان سے خالد
جانا پا کے محبت کا انجام جیتے جیتے