کتنی کشش سے وہ ہمیں اسیر کرتے ہیں

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

کتنی کشش سے وہ ہمیں اسیر کرتے ہیں
جب بھی چہرے بناوٹیں تعمیر کرتے ہیں

نمرتا ہوئا یہ تاؤ کیسی قربانیاں مانگنے آیا
جن کے سروکار ہی بڑے دلگیر کرتے ہیں

دنیا کی اجرتیں دیکھ کر ہم عزلت پسند ہوئے
خدمت گذاری کا نہ ہی وہ ظہیر کرتے ہیں

ہمیں اپنے نصیب سے جو ملا شکر گذاری کرلی
کہیں عادتیں، کہیں عقیدے ہی زنجیر کرتے ہیں

انسان کی اَصل سند تو مَٹی کے مانند ہے
وہ تو عمل ہی ہیں جو اِنہیں بینظیر کرتے ہیں

جیون کی سرمایہ کاری میں چاہتوں کا قبضہ
ضبط ہوتا نہیں ہر راہ خود کو حقیر کرتے ہیں

 

Rate it:
Views: 319
05 Feb, 2011