کتنی کشش سے وہ ہمیں اسیر کرتے ہیں
جب بھی چہرے بناوٹیں تعمیر کرتے ہیں
نمرتا ہوئا یہ تاؤ کیسی قربانیاں مانگنے آیا
جن کے سروکار ہی بڑے دلگیر کرتے ہیں
دنیا کی اجرتیں دیکھ کر ہم عزلت پسند ہوئے
خدمت گذاری کا نہ ہی وہ ظہیر کرتے ہیں
ہمیں اپنے نصیب سے جو ملا شکر گذاری کرلی
کہیں عادتیں، کہیں عقیدے ہی زنجیر کرتے ہیں
انسان کی اَصل سند تو مَٹی کے مانند ہے
وہ تو عمل ہی ہیں جو اِنہیں بینظیر کرتے ہیں
جیون کی سرمایہ کاری میں چاہتوں کا قبضہ
ضبط ہوتا نہیں ہر راہ خود کو حقیر کرتے ہیں