زہر غم دے کے مجھے جانے کدھر گیا ہوگا
غم جدائی میں شاید وہ مر گیا ہوگا
خلوص جس نے بسایا تھا اپنی باتوں میں
تمام لہجے کو اپنی وہ زہر کر گیا ہوگا
جب بے وجہ ہی جھلک جائیں آنکھ سے آنسو
تو یہ ہی سمجو دھواں آنکھوں میں بھر گیا ہوگا
جب روکے اپنے قدم اس نے تو میں نے یہ سمجھا
تمام عمر کے غم سے وہ ڈر گیا ہوگا
خود اپنے ہاتھ سے جھٹکا ہے دل نے خوشیوں کو
کہ خود فریبی میں رہ کر یہ بھر گیا ہوگا
تو کس کو ڈھونڈ رہی ہے ویرانے اب تک
تمھیں بھلا کے تو وہ شخص گھر گیا ہوگا