کرب کی انتہا سے آشنا کِیا ہے
وفا شعاری کا یہ تحفہ دِیا ہے
دِل کا نگر بسانے کا اِقرار کر کے
تنہا کر دِیا ہے یہ صلہ دِیا ہے
ان سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں
بھروسہ کِیا ، یہ ہماری خطا ہے
دِل بھی ہمارا ہماری طرح ہے
ان سے نہیں کوئی شکوہ گِلہ ہے
سدا خوش رہیں مسکراتے رہیں وہ
ان کے لئے دٰل سے جاری دعا ہے