کرب کے دشت میں اک رات مکمل نہ ھوئی
لفظ تو ختم ھوئے بات مکمل نہ ھوئی
پھر تری بزم میں ہم شوق سے آ جاتے مگر
کٹ گیا وقت ملاقات مکمل نہ ھوئی
دل کی گہرائی سے چاہا تھا کہ تو مل جائے
بن ترے میری کبھی ذات مکمل نہ ھوئی
جلتے ھونٹوں سے گلابوں کے بدن کو چوما
پھول زخمائے تو بارات مکمل نہ ھوئی
بہتے دریاوں کی سب موجیں سمندر میں گریں
آنکھ میں آئی تو برسات مکمل نہ ھوئی