کرنے کو بات ان سے بیتاب ہیں ہم
کرنی نہیں بات ہم سے کہتا ہے خراب ہیں ہم
ستارو چمکو اور چمکتے رہو آسمان کی محفل میں
پر نیچے جھانک کے دیکھو جیھل کے مہتاب ہیں ہم
ہم تو آ ہی گئے بزم سب کے سامنے
ہو تم بھی دیکھو تمہاری خاطر بےنقاب ہیں ہم
قسم ہے تیری مد بھری نگاہوں کی قسم
دیکھ لیے ہمیں عشق کی شراب ہیں ہم
ایسا نشہ چھائیے گا پھر بتانا زرا
بوجھل ہوئی آنکھوں کے خواب ہیں ہم
اک پل میں مہرباں اک پل میں حریف جاں
کہتے ہیں دلبر اور کبھی کہتا ہے عذاب ہیں ہم
دل کا ریگستاں کب سے پیاسا رہا
جشم تر اسی ہوئی کہ اب سراب ہیں ہم
ہم سا موتی کہاں ملیےگا تجھے یہاں قلزم
اٹھا لیے جلدی سے بہت نایاب ہیں ہم