مرنے کو ہیں تیار مگر کس سے بولیے
سپنے بھی ہیں ہزار مگر کس سے بولیے
لکھا ہے اس نے پانچویں دن ملنے آئےگا
اور دن ہیں زندگی کے چار مگر کس سے بولیے
لوگوں کا تو ہجوم ہے فریفتہ ہم پہ
ہمہی ہیں آدم بیزار مگر کس سے بولیے
وہ بھی بھول گیا ہے انا کے پاؤں پہ گر کے
کم ہم بھی نہیں ہیں یار مگر کس سے بولیے
ہم ہی نہیں ظالم یہ عازم مان لیجیے
طبعاََ وہ بھی ہے ستمگار مگر کس سے بولیے