گلشن میں نشہ ہے تیرے نقش و نگار سے
کافر نہیں کہ دور رہوں اس خمار سے
میں پھول بانٹتا رہا لفظوں کے روپ میں
کانٹے سمیٹ کر چلا دشت بہار سے
وہ درد میں شدت ہے کہ جس سمت دیکھئے
پتھر پگلتے جاتے ہیں میری پکار سے
کیا دل میں خواہشات بسا کر تجھے ملا
گر سامنے آئے تو میں پوچھوں بہار سے
آنچل نے کھائی موج ہوا بے نقاب پھول
کس نے سفارش کی میری باد بہار سے
اک جرم انا الحق کی سزا کاٹ رہا ہوں
شکوہ نہیں ہے کوئی مجھے سم یا دار سے
لمحات کی رفتار کو میں کیسے جانتا
چپکی رہی حیات تیری راہگزار سے