تلخیوں کا حساب نا پوچھو
محبتوں کے عذاب نا پوچھو
کس میں درج ہے میری زندگی
سنو وہ نامے کتاب نا پوچھو
وہ کیا تھا جس نے آنکھیں سونی کر دی
ہمدم میرے ٹوٹے خواب نا پوچھو
ُاس کی تلخیوں پر تب مسکرائی تھی
میرے ضبط کے وہ آداب نا پوچھو
کیسے کٹ رہی ہے کیوں کٹ رہی ہے
میری تنہایئوں کے باب نا پوچھو
قسمت نے ہر موڑ پر دھوکہ دیا
میری بے بسی کے نصاب نا پوچھو
جانے والے تو چلے ہی جاتے ہیں
کس کی آس ہے مجھے وہ احباب نا پوچھو