کسی بھی کام میں تُجھ بِن مزا نہیں ہوتا
میں اب شراب بھی پی لُوں نشہ نہیں ہوتا
تمہارے بعد کوئی چاہتا نہیں مجھ کو
سُنا ہے تم پہ بھی کوئی فدا نہیں ہوتا
سکون یوں مجھے تنہائیوں میں ملتا ہے
ترا خیال جو مُجھ سے جدا نہیں ہوتا
میں اپنی ذات سے بڑھ کر جسے بھی چاہتا ہوں
عجیب راز ہے وہ پھر مِرا نہیں ہوتا
نصیب والے کو ملتا ہے باوفا ساتھی
ہر ایک شخص ہی تو باوفا نہیں ہوتا
وصال جس کا سکوں دل کو بخش دیتا ہے
اُسی کا ہجر بھی لذت سِوا نہیں ہوتا
ہیں بدعائیں مجھے دینے والے لاکھوں پر
کسی کے لب پہ بھی حرفِ دعا نہیں ہوتا
ہر ایک شخص کا باقرؔ مقام اپنا ہے
کبھی کسی کا کوئی ہم پلہ نہیں ہوتا