کسی جنت سے کم نہ تھے ترے سنگ جو گزارے پل
کھویا تھا میں سویا تھا لے کے وفاؤں کا آنچل
تری بانہوں کے ڈائرے میں ، تری زلفوں سے کھیلا میں
لگا مجھ کو اِس دنیا میں ، اکیلی تُو ہوں اکیلا میں
بہاریں تھیں ، نظارے تھے ، تھا برسا پیار کا بادل
کسی جنت سے کم نہ تھے ترے سنگ جو گزارے پل
سارے لمحے جو ترے سنگ ، بیتائے سمیٹ لیے میں نے
تری خوشبوؤں کے دھاگے ، خود ی سے لپیٹ لیے میں نے
میں نے دل کی تجوڑی میں ، سنبھالا ہے وہ وقتِ وصل
کسی جنت سے کم نہ تھے ترے سنگ جو گزارے پل
وہ لمحہ یاد ہے مجھ کو ، میرا سر ترے سینے پہ
مزہ کیا خوب آیا تھا ، اُسی اِک پل میں جینے میں
میرا وجود فناہ ہوا ، میں تجھ میں ہو گیا شامل
کسی جنت سے کم نہ تھے ترے سنگ جو گزارے پل
میں یادوں کے صندوق سے ، نکال کر تصویریں دیکھتا ہوں
میں چوم کر پھر تری تصویر ، ہاتھوں کی لکیریں دیکھتا ہوں
بہت روئے جدا ہو کے ، ہائے ! دو نام نہالؔ کوملؔ
کسی جنت سے کم نہ تھے ترے سنگ جو گزارے پل