کسی نے دل کا مرےحال جب کہا ہو گا
مجھے یقیں ہے کہ سن کے وہ رو دیا ہو گا
لرز رہا ہے جو دل آسماں پہ تاروں کا
کوئی چراغِ محبت کہیں جلا ہو گا
وفور شوق سے آئے ہیں وہ بھی گلشن میں
اور ان کے آنے سے کیا کیا نہ گل کھلا ہو گا
گلاب رکھا ہے ہر نوکِ خار پر دیکھو
دیارِ عشق میں مجنوں پھر آگیا ہو گا
اُٹھائے پھرتے ہیں کیوں لوگ ہاتھ میں پتھر
کسی نے آئینہ اُن کو دِکھا دیا ہو گا
دیارِ غم کے اندھیروں میں روشنی کے لئے
چراغ بن کے مرا دل بھی جل رہا ہو گا
ترے لبوں کی حسیں مسکراہٹوں کے لئے
نجانے کتنے شہیدوں کا خوں بہا ہو گا
ہزار بار بھی دھو لے وہ آستیں اپنی
نشان میرے لہو کا نہ مٹ سکا ہو گا
سبب تو ہو گا کوئی دل کی دھڑکنوں کا وسیم
سنو تو غور سے کوئی پکارتا ہو گا